حضرت موسی علیہ السلام نے کوہ طور پر اللہ سے باتیں کرتے ہوئے کھنے لگا
یا رب ! مجھے اپنا عدل اور انصاف دکھا ۔۔۔۔۔
اللہ تعالی نے فرمایا؛ فلاں چشمے پر جا اور اس کے پیچھے چھپ جا ۔پھر میری قدرت اور انصاف کا تماشہ دیکھ ۔حضرت موسی گئے اور ٹیلے پر جو چشمے کے سامنے تھا چھپ کر بیٹھ گئے ۔
چشمے پر ایک سوار آیا گھوڑے سے اترا ہاتھ منہ دھویا پانی پیا اور کمر سے میانی کھولی جس میں ھزار دینار تھے نماز پڑھ کر چل دیا اور دیناروں والی میانی وہیں بھول گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک چھوٹا سا بچہ چشمے کے کنارے آیا اس نے پانی پیا اور دیناروں والی میانی اٹھا کر چلتا بنا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ایک اندھا آیا اس نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگا ۔ گھوڑے سوار کو اپنی میانی یاد آگئی وہ جلدی چشمے کی طرف لوٹا ۔ اندھے کو دیکھا تو اس کے سر ہوگیاکہ میں یہاں پر اپنی میانی بھول گیا ہوں جس میں ھزار دینار تھے تیرے سوا یہاں کوئی نھیں آیا سو مجھے واپس کر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندھا بولا آپ جانتے ہو میں اندھا ہوں میں میانی کو کیسے دیکھ پاتا ۔ شھسوار یہ بات سن کر آپے سے باہر ہوگیا ۔۔۔تلوار نکالی اور اسے قتل کر ڈالا ۔ میانی ڈھونڈی اس کو نھیں پایا تو اپنی راہ پکڑ کر وہاں سے بھاگ نکلا ۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت موسی علیہ اسلام سے صبر نہ ہو سکا کھنے لگے یا رب ! تو عادل ہے مجھے بتا دے یہ کیا ہوا ؟؟
جبریل علیہ السلام آئے اور انھوں نے کھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے نبی ! وہ بچی جو میانی لے گیا وہ اپنا حق لے گیا بات یہ ہے کہ اس بچے کا باپ اس گھوڑے سوار کا ملازم تھا وہ مر گیا تو اس نے اس کی تنخواہ نھیں دی بچہ اپنے باپ کی مزدوری کے مطابق رقم لے گیا ۔۔۔۔۔
رہا اندھا ۔۔۔۔۔۔۔ سو اس نے اندھا ہونے سے پھلے گھوڑے سوارکے باپ کو قتل کیا تھا لہذا حقدار کو اس کا حق پہنچ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے اللہ کا انصاف جسے کوئی نہیں جانتا اور وہ بھتر عدل کرنے والا ہے
یا رب ! مجھے اپنا عدل اور انصاف دکھا ۔۔۔۔۔
اللہ تعالی نے فرمایا؛ فلاں چشمے پر جا اور اس کے پیچھے چھپ جا ۔پھر میری قدرت اور انصاف کا تماشہ دیکھ ۔حضرت موسی گئے اور ٹیلے پر جو چشمے کے سامنے تھا چھپ کر بیٹھ گئے ۔
چشمے پر ایک سوار آیا گھوڑے سے اترا ہاتھ منہ دھویا پانی پیا اور کمر سے میانی کھولی جس میں ھزار دینار تھے نماز پڑھ کر چل دیا اور دیناروں والی میانی وہیں بھول گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر ایک چھوٹا سا بچہ چشمے کے کنارے آیا اس نے پانی پیا اور دیناروں والی میانی اٹھا کر چلتا بنا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کے بعد ایک اندھا آیا اس نے وضو کیا اور نماز پڑھنے لگا ۔ گھوڑے سوار کو اپنی میانی یاد آگئی وہ جلدی چشمے کی طرف لوٹا ۔ اندھے کو دیکھا تو اس کے سر ہوگیاکہ میں یہاں پر اپنی میانی بھول گیا ہوں جس میں ھزار دینار تھے تیرے سوا یہاں کوئی نھیں آیا سو مجھے واپس کر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندھا بولا آپ جانتے ہو میں اندھا ہوں میں میانی کو کیسے دیکھ پاتا ۔ شھسوار یہ بات سن کر آپے سے باہر ہوگیا ۔۔۔تلوار نکالی اور اسے قتل کر ڈالا ۔ میانی ڈھونڈی اس کو نھیں پایا تو اپنی راہ پکڑ کر وہاں سے بھاگ نکلا ۔۔۔۔۔۔۔۔
حضرت موسی علیہ اسلام سے صبر نہ ہو سکا کھنے لگے یا رب ! تو عادل ہے مجھے بتا دے یہ کیا ہوا ؟؟
جبریل علیہ السلام آئے اور انھوں نے کھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اے نبی ! وہ بچی جو میانی لے گیا وہ اپنا حق لے گیا بات یہ ہے کہ اس بچے کا باپ اس گھوڑے سوار کا ملازم تھا وہ مر گیا تو اس نے اس کی تنخواہ نھیں دی بچہ اپنے باپ کی مزدوری کے مطابق رقم لے گیا ۔۔۔۔۔
رہا اندھا ۔۔۔۔۔۔۔ سو اس نے اندھا ہونے سے پھلے گھوڑے سوارکے باپ کو قتل کیا تھا لہذا حقدار کو اس کا حق پہنچ گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ہے اللہ کا انصاف جسے کوئی نہیں جانتا اور وہ بھتر عدل کرنے والا ہے
No comments:
Post a Comment