حضرت بابا بلھے شاہ مغلیہ سلطنت کے
عالمگیری عہد کی روح کے خلاف رد عمل کا نمایاں ترین مظہر ہیں۔ آپ کا تعلق
صوفیاء کے قادریہ مکتبہ فکر سے تھا۔ آپ کی ذہنی نشوونما میں قادریہ کے
علاوہ شطاریہ فکر نے بھی نمایاں کردار ادا کیا تھا۔ اسی لئے آپ کی شاعری کے
باغیانہ فکر کی بعض بنیادی خصوصیات شطاریوں سے مستعار ہیں۔ ایک بزرگ شیخ
عنایت اللہ قصوری، محمد علی رضا شطاری کے مرید تھے۔ صوفیانہ مسائل پر گہری
نظر رکھتے تھے اور قادریہ سلسلے سے بھی بیعت تھے اس لئے آپ کی ذات میں یہ
دونوں سلسلے مل کر ایک نئی ترکیب کا موجب بنے۔ بلھے شاہ انہی شاہ عنایت کے
مرید تھے۔ بلھے شاہ کا اصل نام عبد اللہ شاہ تھا۔ 1680ء میں مغلیہ راج کے
عروج میں اوچ گیلانیاں میں پیدا ہو ئے۔ کچھ عرصہ یہاں رہنے کے بعد قصور کے
قریب پانڈو میں منتقل ہو گئے۔
ابتدائی تعلیم یہیں حاصل کی۔ قرآن ناظرہ کے
علاوہ گلستان بوستان بھی پڑھی اور منطق ، نحو، معانی، کنز قدوری ،شرح
وقایہ ، سبقاء اور بحراطبواة بھی پڑھا۔ شطاریہ خیالات سے بھی مستفید ہوئے۔
مرشد کی حیثیت سے شاہ عنایت کے ساتھ آپ کا جنون آمیز رشتہ آپ کی مابعد
الطبیعات سے پیدا ہوا تھا۔ وہ آپ کے وحدت الو جودی تھے، اس لئے ہر شے کو
مظہر خدا جانتے تھے۔ مرشد کے لئے انسان کامل کا درجہ رکھتے تھے۔ مصلحت
اندیشی اور مطابقت پذیری کبھی بھی ان کی ذات کا حصہ نہ بن سکی۔ ظاہر پسندی
پر تنقید و طنز ہمہ وقت آپ کی شاعری کا پسندیدہ جزو رہی۔ آپ کی شاعری میں
شرع اور عشق ہمیشہ متصادم نظر آتے ہیں اور آپ کی ہمدردیاں ہمیشہ عشق کے
ساتھ ہوتی ہیں۔ آپ کے کام میں عشق ایک ایسی زبردست قوت بن کر سامنے آتا ہے
جس کے آگے شرع بند نہیں باندھ سکتی ۔
اپنی شاعری میں آپ مذہبی ضابطوں پر ہی
تنقید نہیں کرتے بلکہ ترکِ دنیا کی مذمت بھی کرتے ہیں اور محض علم کے جمع
کرنے کو وبالِ جان قرار دیتے ہیں۔ علم کی مخالفت اصل میں” علم بغیر عمل“ کی
مخالفت ہے۔ اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو احساس ہوتا ہے کہ بلھے شاہ کی
شاعری عالمگیری عقیدہ پرستی کے خلاف رد عمل ہے۔ آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ
چونکہ لاقانونیت، خانہ جنگی، انتشار اور افغان طالع آزماؤں کی وحشیانہ
مہموں میں بسر ہوا تھا، اس لئے اس کا گہرا اثر آپ کے افکار پر بھی پڑا۔ آپ
کی شاعری میں صلح کل، انسان دوستی، اور عالم گیر محبت کا جو درس ملتا ہے
،وہ اسی معروضی صورت حال کے خلاف رد عمل ہے۔بلھے شاہ کا انتقال 1757ء میں
قصور میں ہوا اور یہیں دفن ہوئے۔ آپ کے مزار پر آج تک عقیدت مند ہر سال آپ
کی صوفیانہ شاعری کی عظمت کے گن گا کر آپ کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment